مہر خبررساں ایجنسی بین الاقوامی ڈیسک؛ کاراما نے موساد اور آکٹوپس کے مرکز پر حملہ کرکے 11 ہزار اہم ایمیل حاصل کی ہیں جن میں اسرائیلی جاسوسوں کے بارے میں اہم اطلاعات موجود ہیں۔
مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ کے دوسرے حصے میں صیہونی حکومت کی سب سے بڑی سائبر سیکیورٹی کمپنی آکٹوپس کی ہیکنگ کے نتیجے میں ہونے والے دو اہم انکشافات پیش کئے جارہے ہیں، جن میں صیہونی حکومت کا چیک ریپبلک کو میزائل سسٹم "شوراد" فروخت کرنے کا خفیہ معاہدہ بھی شامل ہے اس کے علاوہ بائیڈن گیٹ کے نام سے صیہونی حکومت کی جانب سے امریکی شہریوں کی خفیہ جاسوسی کا بھی ذکر ہے۔
ہیک کی گئی دستاویزات میں سے ایک اہم ترین صیہونی حکومت کے "شوراد" میزائل سسٹم کی جمہوریہ چیک کو فروخت کا معاہدہ ہے۔ اس میزائل سسٹم کے لائف سائیکل، یوزر پیٹرن اور کوڈز اور سیکیورٹی آرکیٹیکچر سمیت اہم تکنیکی تفصیلات 39 صفحات پر مشتمل اس معاہدے اور 25 ضمیموں میں سامنے آئی ہیں۔
یہ معاہدہ جس پر وزارت جنگ کے سابق ڈائریکٹر جنرل امیر ایشل اور اسرائیلی فضائیہ کے سابق کمانڈر اور جمہوریہ چیک کے نائب وزیر دفاع لوبر کوڈیلکا کے درمیان دستخط موجود ہیں اور اس کی مجموعی مالیت 800 ملین امریکی ڈالر سے زیادہ ہے، جمہوریہ چیک کے ٹیکس دہندگان کے لیے ایک لاگت ہے۔
اس معاہدے کے دوسرے آرٹیکل کا مقصد جمہوریہ چیک کی فضائیہ کو نیٹو کے کوئیک رسپانس سسٹم کے ایک حصے کے طور پر مضبوط کرنا ہے۔
منظر عام پر آنے والی دستاویزات کے مطابق اس سسٹم میں اسپائیڈر میزائل بیٹریوں کے چار یونٹ شامل ہیں، جن میں سے ہر ایک میں فائر کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم یونٹ، ایک موبائل تھری ڈی ریڈار یونٹ، چار میزائل فائر کرنے والے یونٹ، ایک میزائل سپلائی وہیکل یونٹ، فائر کرنے کے لیے تیار آپریٹر اور تربیتی سامان اور دیگر اسپیئر پارٹس کی تفصیلات شامل ہیں۔
اس معاہدے کے صفحات 10 سے 15 تک ان تمام تفصیلات کے ساتھ مرحلہ وار ترسیل اور ادائیگی کے طریقے سے متعلق سخت شرائط و ضوابط بیان کیے گئے ہیں جن میں خریداری کی قیمت، ڈیوٹی، ویلیو ایڈڈ ٹیکس اور دیگر اخراجات وغیرہ کی ادائیگی کا طریقہ بھی شامل ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ فریقین کے درمیان باہمی اعتماد کا فقدان ہے۔
معاہدے کے آرٹیکل 7.3 میں جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ صیہونی حکومت آخری جزوی فراہمی کے بعد صرف دو سال تک اس نظام کی ترقی کے نتیجے میں تکنیکی دستاویزات کے مواد، فہرست اور فارمیٹ کو اپ ڈیٹ کرنے کی پابند ہے۔ تاہم اس معاہدے کے ضمیمہ 9، 10 اور 17 میں لائف سائیکل کے دوران اس نظام کے معیار اور تعاون کی ضمانت دی گئی ہے۔
معاہدے کے آرٹیکل 17.4 میں نیٹو کے لیے جمہوریہ چیک کی ذمہ داریوں کا تعین کیا گیا ہے اور واضح طور پر ذکر ہے کہ مذکورہ معاہدے کی کوئی شق نیٹو کے رکن ممالک کے فائدے کے لیے شوراد میزائل سسٹم کے استعمال یا نیٹو کے دیگر رکن ممالک میں اس کی تعیناتی کو محدود نہیں کر سکتی۔ ڈیٹا اور معلومات کے تحفظ کے حوالے سے اس معاہدے کا آرٹیکل 19 یورپی یونین کے جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن (EC/95/46) پر مبنی ہے، جس کی صیہونی حکومت نے خلاف ورزی کی تھی۔
اب کاراما کے ہاتھوں ان معلومات تک رسائی اور مہر نیوز کے ذریعے دنیا کے مختلف خطوں تک پھیلنے کے بعد جمہوریہ چیک کی وزارت دفاع کا ردعمل دیکھنا پڑے گا۔
"بائیڈن گیٹ" صہیونی جاسوسوں کے ذریعے امریکی شہریوں کی نگرانی
مہر کرما ہیکنگ گروپ کو دی گئی معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونی حکومت کی شرارتیں صرف غزہ تک ہی محدود نہیں ہیں اور اس نے اپنے آقا اور کرمفرما امریکہ پر رحم بھی نہیں کیا اور وہ امریکی شہریوں کی جاسوسی بھی کر رہی ہے۔
NSO گروپ جو کہ ایک اسرائیلی سائبر انٹیلی جنس فرم ہے جو بنیادی طور پر اپنے ملکیتی اسپائی ویئر پیگاسس کے لیے جانا جاتا ہے اور Q سائبر ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ذیلی اداروں میں سے ایک ہے، اس پر پہلے ہی 2020 میں امریکی شہریوں کی جاسوسی کا الزام لگایا گیا تھا۔
موصولہ دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی احمق سیاستدانوں نے اسرائیلی غاصبوں کو مظلوموں کے خلاف استعمال کرنے کے لئے جو چھری دی تھی اس نے خلاف توقع امریکہ کا اپنا ہاتھ کاٹنا شروع کیا ہے۔
کمپنی نے ستمبر 2020 میں کیلیفورنیا کے آکلینڈ ڈویژن کی ڈسٹرکٹ کورٹ میں اپیل دائر کی اور امریکی شہریوں کی جاسوسی کرنے والی اس کمپنی کے خلاف مضبوط شواہد کے مطابق مدعا علیہان کی درخواست مسترد کر دی گئی ہے۔ کاراما نے انکشاف کیا کہ آکلینڈ ڈسٹرکٹ کورٹ کی تحقیقات کے مطابق اسرائیلی کمپنی پر ایک ہزار سے زائد صارفین، بشمول صحافی، وکلاء۔ اور کارکنوں کی رازداری کے تحفظ کے لیے ریاستی اور وفاقی قوانین کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ مدعی کے خلاف اسپائی ویئر کی تیاری، مارکیٹنگ اور تقسیم کرنے کا الزام ہے۔
NSO کی کارروائیوں کی وجہ سے مدعی نے کمپنی کے خلاف کمپیوٹر فراڈ اینڈ ابیوز ایکٹ (CFAA) اور کیلیفورنیا کمپری ہینسو کمپیوٹر ڈیٹا ایکسیس اینڈ فراڈ ایکٹ (CCCDAFA) کے تحت رازداری کی خلاف ورزی پر مقدمہ دائر کیا۔ عدالت نے بھی کمپنی کو تحقیقات میں تعاون کرنے پر مجبور کیا۔
انکشاف ہونے والی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ کمپنی نے نہ صرف مجرمانہ تفتیشی عمل سے انکار کیا ہے، بلکہ اپیل کی ہے اور تحقیقات کو روک دیا ہے جس پر ضلعی عدالت کی توہین کا بھی مرتکب ہوئی ہے۔ دستاویزات کے مطابق کمپنی نے عدالتی استثنی اور صیہونی حکومت پر خودمختار انحصار کا دعوی کرتے ہوئے مقدمے سے فرار ہونے کی کوشش کی، لیکن ریاستی عدالت نے غیر ملکی خودمختار استثنیٰ ایکٹ (FSIA) کی درخواست کی، جس میں کہا گیا ہے کہ استثنیٰ کا قانون صرف حقیقی افراد پر لاگو ہوتا ہے۔ عدالت نے کئی دوسرے ممالک میں مائیکروسافٹ کے ٹرائل کا حوالہ دیتے ہوئے جاسوسی کمپنی کے دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔
کمپنی پر سب سے اہم الزامات میں سے ایک "ریورس انجینئرنگ" اور سوشل میڈیا ویب سائٹ وٹس ایپ اور اس کے صارفین بشمول صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور غاصب صیہونی حکومت کے سیاسی مخالفین کے خلاف خفیہ حملے ہیں۔
وٹس ایپ نے 2019 میں NSO پر حکم امتناعی اور ہرجانے کا مطالبہ کرتے ہوئے مقدمہ اور الزام لگایا تھا کہ اس نے متاثرین کے موبائل آلات پر پیگاسس سافٹ ویئر کو انسٹال کرنے کے لیے چھ ماہ قبل بغیر اجازت واٹس ایپ سرورز تک رسائی حاصل کی تھی۔
5 فروری 2021 کو وٹس ایپ نے NSO جاسوس کمپنی کے استثنی کے دعوے کو چیلنج کیا اور اپیلیٹ کورٹ سے درخواست کی کہ وہ اس کی خودمختاری کے دعوے کو مسترد کر دے جس کا مقصد حکومتوں کو نگرانی کے سافٹ ویئر کے استعمال سے روکنا یا شہریوں کی معلومات کو کنٹرول کرنے کے لیے نجی کمپنیوں کو ملازمت دینے سے روکنا ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔
آپ کا تبصرہ